How to do trade

والد صاحب کے اچانک انتقال کی وجہ سے گھر بھر کی ذمہ داری سلیم کے جوان کندھوں پر آ پڑی تھی۔ اپنی پڑھائی ادھوری چھوڑ کر وہ اپنے والدِ مرحوم کی چھوڑی ہوئی دکان پر آ بیٹھا۔ بھلے وقتوں میں والد صاحب نے شہر کی مین مارکیٹ میں چھوٹی کریانہ شاپ سے ابتدا کی تھی جو وقت کے ساتھ ساتھ جنرل اسٹور کی صورت اختیار کر چکی تھی۔ بڑھتے کاروبار کو دیکھتے ہوئے والد صاحب نے ساتھ میں دو ملازم بھی رکھ لئے تھے۔

سلیم اپنے والد صاحب کی طرح محنت اور وقت کی پابندی کے ساتھ اسٹور چلانے کی کوشش کر رہا تھا لیکن ایک تو ناتجربہ کاری اوپر سے گاہکوں کا رش، اسی لئے بعض اوقات اس پر جھنجھلاہٹ طاری ہوجاتی جس کا نتیجہ گاہکوں کو غصے سے ڈیل کرنے کی صورت میں نکلتا۔ ایک طرف سے آواز آتی: “سلیم بھائی! تھوڑا جلدی کرنا”، آگے سے جواب ملتا: “آپ نے کون سا جا کر ہَل چلانا ہے، زیادہ جلدی ہے تو دوسری جگہ چلے جاؤ”۔

کہتے ہیں: گاہک میٹھے بول کا بھوکا ہوتا ہے وگرنہ تو ہر دکان پر ایک جیسی چیزیں ہی ملتی ہیں۔ سلیم کے اس رویے کے اثرات ظاہر ہونا شروع ہو چکے تھے۔ رفتہ رفتہ لوگوں نے اس سے سودا خریدنا چھوڑ دیا۔ جہاں پہلے لوگ خریداری کے لئے لائن میں کھڑے ہوتے تھے، اب وہاں بھولے بھٹکے ہی کوئی گاہک آتا۔

ایک دن ظہر کی نماز کے بعد سلیم کرسی پر آنکھیں بند کئے دکان کی بدلتی صورتِ حال پہ غور کر رہا تھا کہ ملازم نے آواز دی: “سلیم بھائی! رفیق چچا آئے ہیں”۔

سلیم کے سوالیہ نظروں سے دیکھنے پر ملازم بولا: “یہ خلیل انکل کے کاروباری دوست تھے، قریب ہی مارکیٹ میں ان کی دکان ہے”۔

سلیم نے کھڑے ہو کر ان سے سلام و مصافحہ کیا اور انہیں اپنی کرسی پر بٹھاتے ہوئے خود قریب رکھے اسٹول پر بیٹھ گیا اور ساتھ ہی ملازم کو چائے کا بھی اشارہ کر دیا۔

“سلیم بیٹا! خلیل بھائی کی وفات کا سن کر دکھ ہوا۔ دو ہفتے پہلے پنجاب گیا تھا، کل ہی واپس پہنچا ہوں اور آج میرے ملازم نے خلیل بھائی کے انتقال کا بتایا تو تعزیت کے لئے آپ کے پاس چلا آیا، اللہ پاک ان کی بخشش فرمائے، آمین”۔

اتنے میں چائے آچکی تھی، رفیق چچا نے چائے کا کپ اٹھاتے ہوئے کاروبار کا پوچھا تو سلیم نے گہری سانس لیتے ہوئے کہا: “چچا! کاروبار کی پوزیشن ٹھیک نہیں، پہلے تو گاہکوں کی لائن لگی رہتی تھی مگر اب تو سارا دن بیٹھے مکھیاں اڑاتے رہتے ہیں”۔

رفیق صاحب نے حیرت سے سلیم کو دیکھا اور کہنے لگے: “بیٹا! تمہارے اسٹور کی تو کافی اچھی بکری ہوتی تھی اور سیزن بھی ایسا کوئی مندا نہیں ہے، پچھلی گلی میں میرا بھی جنرل اسٹور ہے، اللہ کا شکر ہے وہ تو پہلے جیسا اچھا ہی چل رہا ہے”۔

سلیم انہیں حیرت بھری نگاہوں سے دیکھ ہی رہا تھا کہ دکان میں ایک گاہک داخل ہوا اور ٹوتھ پیسٹ طلب کیا۔ ملازم دینے لگا تو گاہک نے دوسری کمپنی کی فرمائش کردی۔ یہ دیکھ کر ملازم سے پہلے ہی سلیم نے اپنی جگہ سے جواب دیا: “بھائی صاحب! ہمارے پاس اسی کمپنی کا ہے، چاہئے تو لیں ورنہ کہیں اور سے پتا کر لیں”۔

رفیق صاحب بیٹھے ہوئے یہ سب معاملہ دیکھ رہے تھے، انہیں ساری بات سمجھ آ گئی اور شفقت سے سلیم سے کہا: “بیٹا! تم اس فیلڈ میں نئے ہو، میں تمہیں چند چیزیں بتاتا ہوں، ان پر عمل کرنے سے اسٹور پھر سے چلنے لگے گا”۔

“جی ضرور چچا جان، میں تو خود آپ سے کہنے والا تھا”، سلیم نے کہا۔

“تو سنو بیٹا:

  1. ہمیشہ دکان پر اچھی اور معیاری چیزیں رکھو۔
  2. جتنا ممکن ہو گاہکوں کو ڈسکاونٹ دو اور اپنا منافع کم سے کم رکھو۔ مثال کے طور پر ایک چیز کی قیمت 100 روپے ہے اور تمہیں 90 روپے میں بیچنے سے بھی منافع مل رہا ہے تو 90 روپے کی بیچو۔
  3. اگر دکان میں کسٹمر زیادہ آ جائیں تو خود بھی سودا دینے میں مصروف ہو جاؤ۔
  4. جتنا جلد ممکن ہو گاہکوں کو سودا دے کر فارغ کر دو، رش کم دیکھ کر کسٹمر زیادہ آتے ہیں۔
  5. گاہکوں کے ساتھ نرمی والا رویہ رکھو، غصہ اور تُوتکار کرنے سے گاہک ٹوٹ جاتے ہیں۔
  6. جب سامان کا ٹوٹل حساب کرو تو اس میں راؤنڈ فگر سے اوپر 2 یا 3 روپے ہوں تو وہ چھوڑ دو۔
  7. جو گاہک پہلے آئے اسے پہلے فارغ کرو۔
  8. اپنی دکان میں سامان ختم ہونے سے پہلے منگوا لیا کرو۔
  9. تمہاری دکان پر گاہک کی تمام چیزیں نہ ہوں تو ایک دو چیزیں قریبی اسٹور سے خرید کر مکمل سامان اپنی دکان سے پیش کر دو، اس سے گاہک پر اچھا اثر پڑتا ہے اور اسے زیادہ دکانوں پر نہیں جانا پڑتا۔

بیٹا! یہ چند اصول ہیں، آپ انہیں اپنا کر دیکھو، آپ کا اسٹور پھر سے چل پڑے گا۔ ان شاء اللہ”۔

 

**حوالہ:**

“کاروبار کیسے کریں”. *ماہنامہ فیضانِ مدینہ*, دعوتِ اسلامی. https://www.dawateislami.net/magazine/ur/tajiron-kay-liye/karobar-kaise-kare

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *