
دہی بھلے سے ڈگری تک: ایک باپ کی محنت جو سوشل میڈیا نے دنیا تک پہنچا دی
کراچی کے علاقے لیاقت آباد میں روزانہ دوپہر کے بعد ایک شخص ریڑھی لگاتا تھا، جس پر سادہ سا بورڈ لگا تھا: “چاچا رشید دہی بھلے والے”۔ سفید کپڑوں میں ملبوس، پاؤں میں پرانے چپل، چہرے پر محنت کی شکنیں، لیکن آنکھوں میں ایک عجیب سی روشنی — جیسے کوئی مقصد ہو، جو دہی بھلے سے بڑا ہو۔
رشید صاحب کی ایک ہی بیٹی تھی، علیشہ، جو کراچی یونیورسٹی میں بی ایس سی کر رہی تھی۔ پڑھائی کے خرچے، یونیفارم، کتابیں، فیس — سب کچھ دہی بھلے کی ریڑھی سے نکلتا تھا۔ وہ روز گاہکوں کو مسکرا کر کھلاتے، اور دل میں دعا کرتے، “میری بیٹی ضرور کامیاب ہو۔”
ایک دن ایک نوجوان بلاگر نے اُن کی ریڑھی سے دہی بھلے کھائے اور ویڈیو بنا لی۔ اُس ویڈیو میں رشید صاحب نے ایک جملہ کہا:
“میں دہی بھلے بیچ رہا ہوں تاکہ میری بیٹی کسی دن افسر بنے۔”
یہ جملہ وائرل ہو گیا۔ صرف تین دن میں لاکھوں لوگ وہ ویڈیو دیکھ چکے تھے۔ سوشل میڈیا پر رشید صاحب کے لیے محبت کا طوفان آ گیا۔ کراچی کے ایک فلاحی ادارے نے اُن کی بیٹی کی فیس بھرنے کی ذمہ داری اٹھائی۔ لوگ روز اُن کی ریڑھی پر صرف سیلفی لینے آتے، اور دہی بھلے خرید کر اُن کا حوصلہ بڑھاتے۔
پانچ ماہ بعد اُنہیں ایک چھوٹے ریستوران میں جگہ دی گئی، جہاں وہ اب بیٹھ کر دہی بھلے، چاٹ، اور سموسے بیچتے ہیں۔ علیشہ اب اپنی پڑھائی مکمل کر رہی ہے، اور ساتھ میں چھوٹی بچیوں کو مفت ٹیوشن بھی دیتی ہے۔
رشید صاحب کہتے ہیں،
“میری محنت اُس دن کامیاب ہوئی جب میری بیٹی نے کہا: ابو، اب آپ ریڑھی پر نہیں بیٹھیں گے، اب دکان آپ کی ہے!”
حوالہ: یہ کہانی کراچی کے رشید صاحب کی اصل زندگی پر مبنی ہے، جن کی ویڈیو سب سے پہلے یوٹیوب چینل “Street Food Stories PK” پر 2022 میں وائرل ہوئی۔ بعد ازاں Geo News اور UrduPoint نے بھی اُن کا انٹرویو نشر کیا۔